آقا ۔ ۔ غلام آئے ہیں ملنے

غلامی تو برسوں پہلے ہوتی تھی ، مگر شاید وہ اچھی غلامی تھی ، کہ صرف ایک فرد ہی غلام ہوتا تھا اور دوسرا فرد آقا ،مگر  اب قومیں غلام ہوتیں ہیں ، غلام قوموں میں سب سے زیادہ مشہور قوم ہے “مسلمان“ ، مسلمان چاہے وہ ایرانی ہو یا افغانی ، افریقی ہو یا یورپی ، اور یا پھر اسلام کی ٹھیکے دار قوم پاکستانی  ۔ ۔ قوم  ۔ ۔ ۔ ویسے تو مسلمان تفرقے میں اپنی مثال آپ ہی ہیں ، جیسے شعیہ ، سُنی یا پھر عربی اور عجمی  ۔ ۔  یا پھر کالے یا گورے مسلمان  ۔ ۔ ۔ مگر تفرقے کی جو مثالیں پاکستانی قوم میں ملتیں ہیں وہ تو شاید ہی کسی دوسری قوم میں ملیں  ۔ ۔ ۔ کبھی یہ شعیہ سنی میں تقسیم ہوتے ہیں ، کبھی بنیاد پرست اور روشن خیالوں میں بٹتے ہیں ، اور پھر پیاز کے چھلکوں کی طرح ، سندھی ، بلوچی ، پنجابی ، پٹھان اور مہاجر یا سرائیکی میں بٹ جاتے ہیں ، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکے یہ تو آغاز ہے ، پنجابی ہے تو وہ جٹوں اور آرئیوں میں تقسیم ہے ، سندھی ہے تو وہ بھٹوز اور زرداریوں میں تقسیم ہے اور بلوچی ہے تو وہ مینگل ، جتوئی اور بگٹی میں خود کی پہچان کروا رہا ہے اور پٹھان ہے تو پشتونوں اور غیر پشتونوں میں بٹا ہے  ۔ ۔ ۔ اور مزے کی بات ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں  ۔ ۔ ۔ اور ہر کوئی دوسرے سے بڑا اور سچا مسلمان ہے  ۔ ۔ ۔ اور جب مسلمان ہے تو غلام ہے  ۔ ۔ ۔ اور غلام بھی کس کا  ۔ ۔  جسکے نام سے مسلمان الرجک ہیں  ۔ ۔ ۔ 
یہ مسلمان بھی عجیب غلامانہ ذھنیت رکھتے ہیں ، آزادی تو انہیں راس ہی نہیں آتی ، خلافت راشدہ کے بعد سے مسلمان ملوکیت کے ایسے غلام بنے کہ آج خلافت بھی نہیں ملوکیت بھی نہیں مگر پھر بھی غلام ہیں ، غلام ابن غلام ابن غلام  ۔ ۔ ۔
اور پاکستانیوں کی غلامی کی تو شاید ساری تاریخ میں مثال نہ ملے ، یہ قوم خود کو آزاد کہتی ہے ، مگر اپنے غلامی کے دور سے بھی بدتر غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر ایسے اترا رہی ہے جیسے کوئی بہت قیمتی زیور ہو گلے میں پڑا ہوا
انگریزوں نے اس قوم کو بنایا (کیونکہ ہندوستانی تو موجود تھے پہلے سے ) پھر اسنے اپنے آپ کو دوسرے گورے (امریکہ) کی گود میں دے دیا  ۔ ۔ ۔ اور وہ دن آج کا دن امریکہ کبھی اسے کھلونے دے کر بہلاتا ہے ، کبھی طرح طرح کے ماسک بدل کر ڈراتا ہے اور کبھی جب یہ بہت رونے لگتا ہے تو لوریاں دے دے کر سُلا دیتا ہے  ۔ ۔ ۔ اور اسے اپنی گود سے پھینک بھی دیتا ہے کبھی کبھی  ۔۔ ۔ 
عجب بچہ ہے یہ ہمارا بھی
مار کھا کہ ہنسے مار کہ روئے
آج پھر یہ “مُنا“ اپنے منہ بولے “آقا“ سے ملنے گیا ہے ، اور ایسے ہی گیا ہے جیسے ایک غلام کو جانا چاہیے  ۔ ۔ ۔  اور ایسے ہی سر جھکا کہ سنے گا جیسے اسے سننا چاہیے اور “ڈو مور“ کا حکم لے کر آئے گا  ۔  ۔ ۔ ۔ اور یہاں آ کر اپنے جیسے چھوٹے بڑے غلاموں کو آقا کا حکم  ۔ ۔ ۔  سنائے گا  ۔ ۔ ۔ اور ہاں آقا اگر کوئی “پرشاد“ دے گا تو یہاں آ کر اسکا ڈھنڈورا پیٹے گا ، اور اگر اسے آقا کے ساتھ کچھ “سناپس شاٹس“ کا موقع ملا تو وہ کندھے سے کندھا ملا کر “چیز“ کہے گا  ۔ ۔ ۔ ۔  کیونکہ یہ غلام ابن غلام ابن غلام ہے  ۔۔ ۔  اور ساری قوم اس آقا کی طرف دیکھ رہی ہے  ۔ ۔  کہ کب اسے کچھ “کام“ ملے تو وہ اپنی “دُم“ ہلا کر ہلکی سی “ووف“ بھی کرے اور آقا کے “مفادات“ کی نگرانی ہو بیٹھ جائے  ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ وقت یاد کرتا رہے گا جب آقا نے اپنے محل میں اسے شرف ملاقات بخشا تھا اور وہ بار بار کہ رہا تھا
 
 
آقا ، غلام آئے ہیں
آقا ، بے دام آئے ہیں
آقا ، اپنی غیرت اپنی عزت اپنی انا
سب تجھ پے نچھاور
آقا بیچنے کو اپنی دھرتی ماں لائے ہیں
آقا ، غلام آئے ہیں
آقا ، ہمیں قدموں میں رہنے دے
آقا ، ہمیں اپنی پناہ میں رکھ
آقا ، میری قوم کا بچہ بچہ تجھ پہ نثار
میرے پیر و جواں ، تیرے پاس آنے کو بے قرار
آقا ، سولہ کروڑوں غلاموں کا سلام لائے ہیں
آقا غلام آئے ہیں  ۔ ۔آقا غلام آئے ہیں  ۔ ۔ ۔

One response to this post.

  1. Posted by Mera Pakistan on جولائی 31, 2008 at 2:06 شام

    آپ نے ہمارے دل کی بات کہی ہے اور ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غلاموں کو غفلت کی نیند سے جاگنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔

    جواب دیں

تبصرہ کریں