بہت پرانی بات نہیں

بہت پرانی بات نہیں ، ملک خداداد پاکستان میں ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا ، ایک ہی ریڈیو تھا ، پی ٹی وی کی ایک سلائیڈ ہوا کرتی تھی ، جس میں اسکے پانچ مراکز دکھائے جاتے تھے ، یعنی کراچی کے لیے بابائے قوم کا مزار ، لاہور کے مینار پاکستان ، پشاور کے لیے درہ خیبر ، کوئٹہ کے لیے زیارت ریزیڈنسی اور درمیان میں ڈائمنڈ کی شکل میں فیصل مسجد ، یعنی اسلام آباد ، کہنے کو یہ ایک چھوٹی سی سلائیڈ تھی ، مگر اس میں سارا پاکستان تھا ، کراچی ٹی وی سے اگر انکل عرفی ، تنہایاں یا ہوائیں نشر ہوتا تھا جو گلیاں ویران کرتا تھا ، تو لاہور کا اندھیرا اجالا ، سورج کے ساتھ ساتھ ، وارث بھی سارے خاندان کو ٹی وی کے آگے بیٹھنے پر مجبور کرتا تھا ، کوئٹہ کا دھواں ہو یا دشت ، ہر گھر میں “الکومونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا “ سنائی دیتا تھا تو پشاور کے بینجو ملنگ برادار اپنی قوالیوں سے بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کرتے تھے ، اسلام آباد اگر خبرنامہ دیتا تھا تو کلیاں بھی تو تھا ، انکل سرگم ، ہے گا ، نونی پا ۔ ۔ ۔ اپنے ہی گھر کے فرد تھے ۔ ۔۔ عینک والا جن ، منگو میرا نام ، ربوٹ ، ٹک ٹک کمپنی ، بہادر علی ۔۔ ۔ ۔ بچوں کے ایسے دوست تھے کہ خواب انکے ہی دیکھتے تھے ۔ ۔ ۔
کسی کو انگریزی آتی تھی یا نہیں ، نائیٹ رائیڈر ، ائیر وولف ، جیمنی مین ۔ ۔ ۔اور پھر فرائیڈے نائیٹ سینما سے ہی تو ہم نے جیری لوئیس ، باب ہوپ ، گریگری پیک ، بیٹی ڈیوس ، عمر شریف کو جانا ۔ ۔ ۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب ففٹی ففٹی لگا کرتا تھا ، جب شو شا لگتا تھا جب الف نون تھے ، جب مسٹر شیطان ۔ ۔ ۔ ہمارے ہونٹوں پے ہنسی کے گول گپے کھلتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
محمد علی شہکی ، اے نئیر ، نیرہ نور ، مہناز ۔ ۔۔ ۔ غلام عباس ۔ ۔ ۔ اور پھر “سارے دوست ہمارے“ کے انکل سہیل رانا کے گیت ، چاہے وہ “تیری وادی وادی گھوموں“ ہو ۔ شاوا بھئی شاوا ہو یا پھر “پورب کا دروازہ کھلا ، ٹھنڈی ٹھنڈی چلی ہوا“ جیسے ہونٹوں پر مچلتی نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
پانج بجے تلاوت کلام پاک سے شروع ہونے والا ٹی وی ، رات بارہ بجے فرمان الہی کے بعد قومی ترانے پر بند ہوتا ۔ ۔ ۔ سب آرام سے سو جاتے ۔ ۔ ۔صبح کا آغاز ریڈیو پاکستان کی تلاوت سے ہوتا ۔ ۔ ۔۔ جی تو ۔ ۔ ۔۔ یہ تھا ہمارا ٹی وی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پرانا ٹی وی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پی ٹی وی
آئیے زرا یاد کرتے ہیں ریڈیو کو ۔ ۔ ۔ ۔۔ جی ہاں ریڈیو پاکستان ، قومی نشریاتی رابطہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کسی کو عبدالسلام کی یہ آواز یاد ہے ، یہ ریڈیو پاکستان ہے ، اس وقت رات کے نو بجے ہیں ۔ ۔ ۔۔ اور پھر فوجی بھائیوں کا پروگرام ۔ ۔ پنڈی والوں کے لیے جمہور نی آواز اور سندھ والوں کے لیے کچہری ، پشاور والوں کے لیے بیٹھک اور بلوچستان والوں کا واجہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر رات کے گیارہ بجے آپ کی فرمائش ۔۔ ۔ ۔ اگر کراچی کے حامد میاں کے ہاں لوگ روز جاتے تھے تو پنجاب کے تلقین شاہ کی باتیں بھی تو سنی جاتیں تھیں ۔ ۔ ۔
آئیے ملتے ہیں ایک اور انٹرٹینمنٹ میڈیا سے جسے ہم فلم کہتے ہیں ، فلم ایک مکمل تفریح تھی ۔ لالی وڈ اسے کہنا مناسب نہیں لگتا ، یہ لاہور کی فلم نگری تھی جو شاہ نور اسٹوڈیو میں آباد تھی ، یا کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ، یہ وہ جگہیں تھیں ، جہاں “تیری یاد“ سے لیکر “گھر واپس کب آؤ گے“ تک فلمائیں گئیں ، جہاں سورن لتا سے لیکر میرا تک ۔ ۔ ۔ اور ناصر خان سے لیکر شان تک ہمیں اپنے حصار میں لیے رکھے ہیں ، وہ ایس سلمان ہوں یا سید نور ، وہ فیروز نظامی ہوں یا طافو ، وہ زبیدہ خانم ہوں یا حمیرا چنا ، وہ منیر احمد ہوں یا جواد ۔۔ ۔ سب اسی نگری کے باسی تھے ۔ ۔۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کالج کے بچے اپنی دوستی کا آغاز “میں شبنم تو ندیم“ کہ کہ کیا کرتے تھے ، وحید مراد کی چھاپ تو کبھی نہیں جائے گی ، اور سلطان رہی ہو یا بدر منیر ۔ ۔ ۔ اسمائیل شاہ ہو یا معمر رانا ۔ ۔ ۔ لالہ سدھیر ہو یا ساقی ، منور ظریف ہو یا رنگیلا ۔ ۔۔ کس کس کا نام لوں ۔ ۔ ۔ کیا یہ سب ہمارے دلوں پہ راج نہیں کرتے تھے ؟ اور کیا یہ سب ہمارے نہیں تھے ؟
لیجیے یاد آیا ، اسی دیس میں کچھ ٹھیٹر بھی ہوا کرتے تھے ، خواجہ ناظم الدین ۔ ۔ ۔ مرزا غالب کو بندر روڈ پر کیا لائے ، سارے ملک کے اسٹیج پر تعلیم بالغاں سج گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کراچی کے لوگ شکسپئر کو اسٹیج کرتے تھے تو لاہور والے بھی تو اوپن ائیر میں رومیو جولیٹ دیکھا کرتے تھے ۔ ۔ ۔۔ اگر سائیں اختر کی صدا پنجاب میں گونجتی تھی تو مائی بھاگی کی کوک بھی تو سندھ سے آتی تھی ، خمیسو خان کی بانسری تھی تو زرسانگا کے ٹپے ۔ ۔ ۔ ۔ کشمیر سے جوگی اتر پہاڑوں آتا تھا تو ۔ ۔ ۔ مور ٹوڑ ٹلے رانا پر سب جھومتے تھے ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ سارے گیت اپنے تھے ، سارے رنگ ہمارے تھے ۔ ۔ کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ یہ تو کراچی کا مہاجر ہے ، یہ لاہور کا پینڈو ہے ، یہ پشاور کا بے وقوف پٹھان ہے ، یہ کالا خبشی بلوچی واجہ ہے ۔ ۔ ۔ حتہ کہ ہم تو اسلام آباد کے مکینوں کو بھی ۔ ۔ سر جناب کہا کرتے تھے ۔ ۔ ۔
ہمارے بچوں کو پاکستان کا پتہ تھا ، ہمارے بڑوں کو یہ خیال تھا کہ یہ ملک کیا ہے ، ہمارے بزرگوں کو ناز تھا

میں آج جس ملک میں رہتا ہوں ، یہ وہاں کے ماضی کی ایک جھلک ہے ، آج میرے دیس میں سو سے اوپر ٹی چینل ہیں ، اور بھانت بھانت کے ریڈیو اسٹیشن ہیں ۔ ۔۔ ۔ مگر نہ وہ میرے گیت سناتے ہیں ، نہ میرا دیس دکھاتے ہیں ، ہمارے ڈرامے دبئی میں شوٹ ہوتے ہیں ، ہمارے گیت انڈیا میں جا کہ بنتے ہیں ، ہماری فلمیں مر چکی ہیں ، ہمارا اسٹیج بے ہودگی کا گڑھ بن گیا ہے ۔ ۔۔ اور ہمارے بچے اب صبح اٹھ کہ چھوٹا بھیم دیکھتے ہیں ، ہمارے جوان “ایٹم سانگز“ پر ناچتے ہیں ، ہمارے بزرگ یہ سب دیکھ کر چُپ بیٹھے ہیں ۔ ۔۔
میں آج پھر اپنی ایک پرانی نظم کو یاد کر رہا ہوں ۔۔ ۔۔ ۔ ۔
—————————————

یہ لڑنے جھگڑنے والوں کی بستی
یہ نفرت کی سیاست چالوں کی بستی
یہ آگ اور انگاروں سے بنی ہے دنیا
یہ بندوقوں بموں بھالوں کی بستی

جیسا ہے یہ تو ایسا نہیں تھا
میرا دیس تو ایسا نہیں تھا

بنایا تھا اسکو خوں دے کہ اپنا
سجایا تھا ہم نے مل کہ یہ سپنا
مل کہ ہم نے کیا تھا حاصل
اک ساتھ تھا سب کے دل کا دھڑکنا

اک تھا ،ٹکروں کے جیسا نہیں تھا

میرا دیس تو ایسا نہیں تھا

آندھی بھی آئی ، طوفاں بھی آئے

بادل بھی گرجے ، سیلاب بھی آئے
روکا سب نے دیوار بن کہ
دشمن کے گولے سینے پے کھائے

جینا اور مرنا تو ایسا نہیں تھا
میرا دیس تو ایسا نہیں تھا

کوئی بھوک سے بلکتا نہیں تھا
دکھوں سے کوئی سسکتا نہیں تھا
چوری تو تھی پر ڈاکا نہیں تھا
زردار تھے مگر کوئی اندھا نہیں تھا

مقصد جیون کا پیسا نہیں تھا
میرا دیس تو ایسا نہیں تھا

میرا خدا ہم کو اتحاد دے دے
اجڑے ہوؤں کو آباد دے دے
دے دے ہمیں تو رحمتیں اپنی
ٹوٹے دلوں کو تو شاد دے دے

خدا سے یوں جدا سا نہیں تھا
میرا دیس تو ایسا نہیں تھا

One response to this post.

  1. اظہر بھائی آپ نے بہت اہم موضوع پر بہت خوب لکھا. ہر لفظ جیسے دل کی آواز.

    جواب دیں

تبصرہ کریں