سفید کمرے کی کالی دیوار – آخری قسط

امریکی اور اسرائیلی کمانڈو انکے پیچھے لگ چکے تھے ، اسلئے اب انہیں اپنا مشن جلدی پورا کرنا تھا ، وہ اس وقت لیفکے شہر کے نواحی علاقے میں موجود تھے یہ ایک جھنگل نما جگہ تھی ، لیباٹری بھی اسی علاقے میں تھی ، کیونکہ اسکے سگنل بہت اسٹرنگ تھے اس جگہ  ۔ ۔ ۔ ۔  ناصر کے سامنے اس وقت سرکٹوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا ، یہ سرکٹ اسنے بہت ساری الیکٹرانکس دیوائیسز سے نکالے تھے  ۔ ۔ ۔  وہ انہیں جوڑ رہا تھا ، دوسری طرف صابر اور اسحاق ، بنگلے کے باغیچے میں تاریں بچھا رہے تھے ، جو کہ چھت پر ایک ڈش کے ساتھ لنک تھیں  ۔ ۔ ۔  انکے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ٹی وی تھا ، جسپر سگنل آ جا رہے تھے  ۔ ۔ ۔ ۔انہوں نے وائرز کو ٹی وی تک لے جا کر چھوڑ دیا  ۔ ۔ ۔ تھا  ۔  ۔۔  ناصر نے انکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا  ۔ ۔ ۔ یار کچھ کھا بھی لو  ۔  ۔۔
ٹائم کہاں ہے کھانے کا  ۔ ۔ ۔ پتہ ہے کوناگی میں لانچ رات آٹھ بجے تک پہنچ جائے گی  ۔  ۔ ۔
ہاں کام ہو گیا ہے ، بس فٹنگ کرنی ہے  ۔ ۔ ۔
مگر بتاؤ بھی کہ کیا ہوا ہے  ۔ ۔ ۔
بتاتا ہوں پہلے کچھ کھلا تو دو تم بے شک نہیں کھانا
ارے میں سینڈوچ بنا لاتا ہوں ۔ ۔ ۔ صابر نے کہا 
بلیک کافی کے ساتھ لانا  ۔  ۔۔
مجھے بھی  ۔ ۔  اسحاق نے کہا  ۔ ۔ ۔
اوکے باس  ۔ ۔ ۔ صابر کچن کی طرف چلا گیا  ۔ ۔ ۔
ناصر نے ٹی وی کے اندر ایک سرکٹ فٹ کیا  ۔ ۔ ۔ اور دوسرا سرکٹ لے کر باغیچے میں گیا اور تاروں کے ساتھ منسلک کر دیا جو اسحاق اور صابر نے بچھائیں تھیں  ۔ ۔ ۔ ۔
اسے مٹی میں دبا دینا چاہئے  ۔ ۔ ۔ اسحاق نے کہا  ۔ ۔ ۔
ہاں یہ تو کرنا پڑے گا پہلے ٹیسٹ ہو جائے  ۔ ۔ ۔
وہ واپس اسی کمرے میں آئے ٹی وی آن کیا  ۔ ۔ ۔ ۔ ناصر نے ریموٹ اٹھایا اور چینل سرچ کرنے لگا  ۔ ۔ ۔  ایک فریکیونسی پر آ کہ اس نے روک دیا ، ٹی پر آڑی ترچھی لائنز آ رہی تھیں  ۔ ۔ ۔   ہیڈ آفس ملاؤ  ۔ ۔ ۔ اسحاق نے سٹئلائٹ فون سے ایک کی دبائی ۔ ۔ ۔ ۔  پروگرام آ رہا ہے کیا  ۔ ۔ ۔  ناصر نے فون لے کر پوچھا  ۔ ۔ ۔ دوسری طرف سے اثبات میں جواب ملنے پر ناصر نے کہا کہ کنٹرول چیک کرو  ۔   ۔  آبجیکٹ کنٹرول میں ہے  ۔ ۔ ۔ ۔
اسی لمحے میں صابر کھانے کی ٹرے کے ساتھ اندر آیا  ۔ ۔ ۔
شکر ہے کام ہو گیا   ۔ ۔ ۔ ناصر نے فون بند کرتے ہوئے کہا  ۔ ۔ ۔ اب ہم جا سکتے ہیں 
مگر تم نے کیا کیا ہے  یہ تو بتاؤ  ۔  کیونکہ لیب تو ادھر ہی ہے اور  ۔ ۔ ۔
میں بتاتا ہوں  ۔ ۔ ۔  ناصر نے ایک سینڈوچ کا نوالہ لیتے ہوئے کہا  ۔ ۔ ۔
میری کوشش تھی کہ ہم قبرص سے باہر اس لیباٹری کو تباہ کریں ، اور میں اس میں کامیاب رہا ہوں ، ہم لیباٹری کے اندر نہیں جا سکتے اور نہ ہی کوئی ادھر سے باہر آئے گا ، مگر اس وقت لیباٹری میں تیس عدد وہ لوگ موجود ہیں جنکے برین میں چپ فکس کی جا چکی ہے ، میں نے انہیں کو کنٹرول کیا ہے ، اور ہیڈ آفس کے کنٹرول روم سے انہیں کنٹرول کر کہ چیک کیا جا چکا ہے  ۔ ۔ ۔
یعنی ہم انہیں لیب تباہ کرنے کے لئے استعمال کریں گے  ۔  ۔
بالکل  ۔ ۔ ۔
اور یہ سرکٹ ،
یہ ہمارے لئے لنک کا کام کرے گا سٹیلائٹ لنک کا  ۔ ۔ ۔ ۔
اور اس طرح کرے گا کہ کوئی اسے ڈی ٹیکٹ نہیں کر سکے گا اور کرے گا بھی تو اسے یہ سگنل اپنا ہی لگے گا  ۔  ۔  یاد ہے وہ وائرلیس جس سے میں نے چپ نکالی تھی  ۔ ۔ ۔  یہ وہ ہی چپ ہے  ۔ ۔  ۔
ہم نے چھے مہینے کا کرایہ دے چکے ہیں لہذا کوئی ادھر آئے گا نہیں ،
چلو پھر ریڈی  ۔ ۔ ۔  ہم بیس منٹ میں ساحل پر ہونگے  ۔ ۔ ۔
انشااللہ  ۔ ۔ ۔
اور تھوڑی دیر میں وہ کوناگی کے ساحل کی طرف جا رہے تھے جہاں پر ایک لانچ انکی منتظر تھی
—————————————————–
لیب کے اندر بہت خاموشی تھی ، پچھلے ایک ہفتے سے کوئی بھی شخص چپ کی فٹنگ کے لیئے نہیں لایا گیا تھا ، ڈاکٹر گور ایک میز پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر مختلف کمروں کے منظر دیکھ رہا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔ اسکے چہرے پر بے زاری نمایاں تھی  ، اسنے میز پڑے لال فون کو اٹھا اور ایک ہی نمبر دبایا ۔  ۔ ۔  تھوڑی دیر تک اسے انتظار کریں کا پیغام ملتا رہا  ۔  ۔۔ پھر ایک بھاری آواز گونجی  ۔ ۔ ۔ یہ کرنل ڈیوڈ تھا لیب کی سیکورٹی کا انچارج ، کرنل ہم کب تک یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں گے ، ڈاکٹر گور نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا
جب تک خطرہ پوری طرح ٹل نہیں جاتا  ۔ ۔ ۔ ۔
کب تک ٹلے گا خطرہ  ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نے پوچھا
کچھ کہا نہیں جا سکتا  ۔ ۔ ۔
اسی لمحے کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک ونڈو کھلی جس پر لکھا تھا ارجنٹ میسج  ۔ ۔ ۔  میں تمہیں فون کرتا ہوں پھر ڈاکٹر نے کہا اور میسج کھول ، جس میں لکھا تھا کہ ، کچھ جوان جنکو چیپ لگائی تھی وہ اپنی زبان میں کوئی گیت گا رہے ہیں مل کر  ۔ ۔ ۔  اور ایک دوسرے پر سرکس کے انداز میں حرکتیں کر رہے ہیں  ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر نے جلدی سے کچھ کیز دبائیں  ۔ ۔  ۔ لیب ٹاپ کی اسکرین کالی دیوار والا ایک کمرہ تھا ، جس کے وسط میں جوان بیٹھے گیت گا رہے تھے  ۔ ۔ ۔ ۔
ہونٹ انابی آنکھیں شرابی
چاند سا چہرہ ، مکھڑا گلابی
اس پے تیرا مسکرانا ، مر جاؤں گا
او جان جاناں مر جاؤں گا
ڈاکٹر مسکرا دیا  ۔ ۔ ۔ ارے یہ تو ایک فوک گیت ہے ، وہاں کے لوگ گاتے ہیں ایسے  ۔ ۔ ۔  اسنے دیکھا جوان ایک دوسرے کے کاندھے پر چڑھے ہوئے تھے اور ایک جوان کالی دیوار کو ہاتھوں سے ناپ رہا تھا  ۔ ۔  ۔ ۔   ہا ہا ہا  شاید یہ کمرے کی چھت سے باہر نکلنا چاہتے ہیں بے وقوف  ۔ ۔۔ ۔
——————————-
ہیڈ آفس کے کنٹرول روم میں ناصر  بہت ساری اسکرینوں کے سامنے بیٹھا تھا ، اس ہال میں بہت سارے ایسے ہی ڈیسک تھے  ۔۔ ۔ ۔  سامنے ایک بڑی اسکرین تھی جس پر کالی دیوار والے کمرے کا منظر تھا  ۔ ۔ ۔ ۔  جس میں ایک جوان کالی دیوار ناپ رہا تھا  ۔ ۔ ۔
سر مجھے اسکا سنٹر پوائینٹ مل گیا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ایک طرف سے آواز آئی ، یہ عامر تھا ، میٹھمیٹکس ایکسپرٹ  ۔ ۔ ۔ 
گڈ  ۔ ۔ ۔
سر میں نے سب جوانوں کے قد  سے بھی اندازاہ کر لیا ہے کہ کون یہ کام کرے گا
ویری گڈ  ۔  ۔ ناصر نے کہا  ۔ ۔
او کے  ۔ ۔ ۔ ناؤ ایکشن  ۔ ۔ ۔۔
سر پروگرام فیڈ کیا جا چکا ہے ، ہمارے اندازے کے مطابق یہ کام دو منٹ میں پورا ہو گا اور کیونکہ ہمارا سٹالایٹ ڈیلے دو منٹ کا ہی ہے اسلئے ہمیں چار منٹ بعد نظر آئے گا  ۔۔ ۔  
مگر یہ جو دو منٹ کا بلیک آؤٹ ہے اسکا کیا ہو گا
یار اسی لئے کہا تھا کہ یہ کام وہیں کرنا چاہیے تھا قبرص میں صابر کی آواز گونجی 
نہیں سر یہ بلیک آؤٹ نہیں ہو گا  ۔ ۔ ۔  ہم پوری سٹڈی کر چکے ہیں  ۔ ۔ ۔
او کے پھر گو آہیڈ  ۔ ۔
بسم اللہ  ۔۔۔ ۔ ناصر نے کہا اور ایک بٹن دبا دیا ۔۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں جوانوں میں جیسے پارہ بھر گیا تھا  ۔ ۔ انہوں نے ایک جوان کو اٹھایا جو تیر کی طرح اکڑ چکا تھا اور اٹھا کر کالی دیوار کی طرف دوڑ لگا دی  ۔۔۔  اسی طرح ایک دوسرے جوان کو بھی کچھ جوانوں نے اٹھایا اور کالی دیوار کی طرف دوڑ لگا دی اور جیسے ہی انکے سر دیوار سے ٹکرائے  ۔ ۔ ۔ ایک چھناکے کی آواز آئی  ۔ ۔۔  اور کالی دیوار ریزہ ریزہ ہو گئی  ۔ ۔  ۔
اللہ اکبر  ۔ ۔ ۔ اللہ اکبر  ۔ ۔ ۔ سارا ہال گونچ اٹھا
——————–
یہ یہ کیا کر رہے ہیں  ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر گور نے  ۔ ۔  اپنی اسسٹنٹ کودیکھا  ۔ ۔ ۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ انہیں ایک جگہ مت رکھیں  ۔ ۔ ۔  کالی دیوار ٹوٹ چکی تھی  ۔۔۔   جوان ادھر ادھر بکھر گئے تھے  ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ جوان کنٹرول مشین پر بیٹھ چکے تھے  ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں میں یہ نہیں ہونے دوں گا  ۔۔ ۔ ڈاکٹر گور نے چلاتے ہوئے کہا  ۔۔ ۔ ۔
مگر اسی وقت کنٹرول روم میں گن مین داخل ہوئے اور انہوں نے جوانوں پر گولیاں برسانی شروع کر دیں  ۔ ۔
ارے بے وقوفو یہ کیا کر رہے ہو ساری مشینری تباہ ہو جائے گی  ۔۔ ۔
کچھ جوانوں نے گن مینوں سے مشین گنیں چھین لیں تھیں  ۔ ۔ ۔
اور وہ لیب میں پھیل چکے تھے  ۔ ۔ ۔ اور بے دھڑک فائیرنگ کر رہے تھے  ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر گور فون پر چلا رہا تھا  ۔ ۔  
ایک جوان کو اسنے کمیونیکیشن روم میں جاتے دیکھا  ۔ ۔  یہ یہ کیا کر رہا ھے  ۔ ۔  یہ ان پڑھ جاہل اس مشین کی فریکوینسی بدل رہا ھے  ۔ ۔ ۔ ۔  اوہ اوہ  ۔  ۔ اسنے اپنی اسکرین پر دیکھتے ہوئے کہا  ۔۔ ۔ نہیں یہ خواب ہے ایسا نہیں ہو سکتا  ۔ ۔ ۔
سب ہو سکتا ہے ڈاکٹر گور  ۔ ۔ ۔ اسکے لیب ٹاپ میں آواز ابھری  ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لیب تباہ کی جا رہی ہے  ۔ ۔۔ ۔  مگر کیوں  ۔ ۔ ۔ اگر تھوڑی دیر اور ہم نے اس کمیونیکیشن کو جاری رکھا تو ہمارے بہت سارے راز کھل جائیں گے  ۔۔ ۔ ۔   گڈ بائے ڈاکٹر  ۔ ۔ ۔
نہیں   ۔ ۔ ۔ نہیں سنو  ۔۔ ۔ سنو  ۔ ۔  ۔ ۔ تم مجھے مار دو مگر یہ فارمولہ لے لو  ۔ ۔ ۔  یہ فارمولہ یہاں کے سوا کہیں نہیں ہے  ۔ ۔ ۔
کنٹرول تو بہت جگہ ہیں ڈاکٹر  ۔ ۔ ۔۔ ۔
مگر فارمولہ ادھر ہی ہے  ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔  اور اگر یہ مین کمپیوٹر تباہ ہوا تو باقی سب کنکشن ختم ہو جائیں گے  ۔ ۔  ۔  اسنے لال فون کا ایک بٹن دبایا  ۔۔ ۔  پریزیڈنٹ پلیز  ۔ ۔۔ ۔ ۔
ہلیو  ۔ ۔ ۔  ۔ ایک آواز ابھری  ۔ ۔
سر ۔ ۔  ۔  چپ سیون ایٹ سیکس  ۔ ۔ ۔ ڈسٹرائے ہو جائے گی اگر لیب تباہ ہوئے  ۔ ۔ ۔ ۔
سوری ڈاکٹر  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ سب کا مشترکہ فیصلہ ہے
مگر گریٹ اسرئیل  ۔ ۔ ۔ ۔
اسرئیل از اگری  ۔ ۔ ۔
ناٹ پاسیبل  ۔ ۔ ۔  نو نو نو  ۔ ۔ ۔ نہیں ہو سکتا اسرائیل کبھی بھی نہیں ۔ ۔ ۔  تم گریٹ اسرائیل کو  ۔ ۔ ۔  نہیں روک سکتے  ۔ ۔  ۔
نان سنس  ۔ ۔  ۔  یو  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نے پریزیڈنٹ کو ایک بھر پور گالی دی ۔ ۔ ۔ ۔
شٹ اپ  ۔ ۔ ۔  اور فون ڈسکنکٹ ہو گیا  ۔۔ ۔ ۔ ۔
اور ساتھ ہی کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا  ۔ ۔۔ ۔  اور لیب کے پرخچے اڑ گئے   ۔ ۔ ۔  آبادی سے میلوں دور لوگ اسے صرف ایک دھم کی آواز ہی محسوس کر سکے کیونکہ ساری لیب زیر زمین تھی  ۔ ۔ ۔ ۔  اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں لیب کے اوپر جو اس دھماکے کی آواز کو دبا گئیں  ۔ ۔ ۔۔
————————————————-
ناصر یہ تہمارا کارنامہ ہے  ۔۔ ۔ ۔ ۔ نہیں  ۔ ۔ ۔ یہ میرا نہیں یہ اس جوان کا کارنامہ ہے جس نے اس راز کو بے نقاب کیا ہے
لال خان اور اقبال دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے
پروفیسر شکیل اور وکٹر بھی وہیں تھے  ۔ ۔۔  ۔  اور انہیں دلاسا دے رہے تھے
ویسے کیا خیال ہے کمانڈر اب ایسا کوئی اور اسٹیشن نہیں ہو گا  ۔۔ ۔
ہو گا تو سہی  ۔ ۔ ۔ مگر جیسے ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر گور کا کہنا تھا کہ وہ فارمولا وہیں تھا  ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں فارمولا تو ڈی کوڈ ہو گیا تھا  ۔ ۔ ۔ ہاں چپ کا پلانٹ وہیں تھا  ۔ ۔ ۔ 
پھر بھی انہیں یہ کام کرنے میں اب کافی دیر لگے گی   ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نے چپ ڈیٹیکٹر بنا لیا ہے اور ایک ایک کر کہ ہم ان جوانوں تک پہنچیں گے  ۔ ۔ ۔ جو اس کا شکار ہوئے ہیں
اور ہمیں انکی مدد سے بہت سارے دھشت گردوں کا بھی پتہ چلے گا  ۔ ۔ ۔
ویسے ایک بات ضرور کہوں گا ، شکیل صاحب بولے
جی وہ کیا
کہ اب مجھے بھی یقین آ گیا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی میں کسی سے کم نہیں ہیں
ہاں  ۔۔ ۔ اور اسکی وجہ ہے  ۔ ۔ ۔
وہ کیا  ۔۔ ۔ ہمارے برینز میں پیدائیشی طور پر ایک چپ ہوتی ہے
یعنی سارے ہموطنوں میں  ۔۔
جی اور وہ چپ ہے  ۔۔ ۔ محبت کی  ۔ ۔ ۔ دوستی کی اور وطن پرستی کی  ۔  ۔
ہاں یہ تو ہے  ۔ ۔  ۔
مگر یہ بھی تو ہے کہ اس چپ کو بھی کوئی نہ کوئی کنٹرول ضرور کر لیتا ہے  ۔ ۔۔ ۔
ہاں یہ بھی ہے ۔ ۔ ۔  جیسے ہمارے لیڈران اور دانش ور  ۔ ۔ ۔ وغیرہ انکو کنٹرول کیا جا سکتا ہے
مگر عام آدمی  ۔۔ ۔ ۔  کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے  ۔ ۔ ۔
ہاں یہ تو ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی لمحے کمانڈر اسحاق کے فون کی بیل بجی  ۔ ۔ ۔ اسنے فون سنا  ۔ ۔
او کے سر  ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے افسوس ہے ، آپ چاروں کے لئے ایک بری خبر ہے
وہ کیا  ۔ ۔ ۔۔  ۔ ۔
آپ بھی نام بھی گمشدہ لوگوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر  ۔ ۔ ۔
سوری  ۔ ۔ ۔  گڈ بائے  ۔ ۔۔ ۔ ۔  کمانڈر اسحاق  ۔ ۔ ۔ نے اپنی ٹوپی صحیح کی  ۔ ۔ ۔اور ناصر اور صابر کے ساتھ باہر نکل گیا
چند فوجی آئے اور انہیں بندوقوں سے ہانکتے ہوئے  ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بند وین میں ڈال دیا  ۔ ۔
اور پھر وہ کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہو گئی  ۔ ۔ ۔  ۔ ۔
———————————————–
اسے ایسا لگا کہ جیسے آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹ گیا ہو  ۔۔ ۔ ۔  اس نے اپنے جسم پر لپٹا بارود دیکھا اور ہاتھ میں اسکا ٹریگر تھا  ۔ ۔ ۔  وہ چیخنے لگا  ۔ ۔۔ ۔ اور بھاگنے لگا   ۔ ۔ ۔  پولیس نے نشانے پر رکھا تھا  ۔ ۔ ۔ اور کچھ گرم سلاخیں اسکی پیٹھ میں گستی چلی گئیں  ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے ویران ہوتی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس والے اس پر گولیاں برسا رہے تھے  ۔ ۔ ۔ اور اسکے ذہن میں صرف ایک ہی سوچ ابھر رہی تھی کہ کب کہاں اور کیسے  ۔ ۔۔ ۔  اسنے یہ بارود اپنے جسم پر باندھا  ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر اسکے ذھن کے پردے پر ایک کالی دیوار ابھری  ۔ ۔ ۔ ۔ اور  ۔۔ ۔ وہ دیوار اندھیرے میں بدل گئی  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ساتھ ہی ایک دھماکہ ہوا اور اسکے جسم کے پرخچے اڑ گئے  ۔ ۔ ۔ اسکے ذھن نے ہاتھ کو ٹرئیگر دبانے کا سگنل دے دیا تھا  ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔۔ ۔

2 responses to this post.

  1. سر جی جاسوسی ناول نگار ہیں آپ پورے کے پورےقسمت آزمائی کر کے ایک سیریز شروع تو کریں

    جواب دیں

  2. Posted by Obaid Ullah on ستمبر 2, 2009 at 1:38 صبح

    aray Azher bhai aap nay Singh Hi ko phir say kion zinda’ kar dia?

    جواب دیں

تبصرہ کریں