آگ اور آئینہ – ایک سائنس فکشن

ہمیں چھے مہینے کے بعد ایک سیارہ ملا تھا جس پر انسانی زندگی کا ماحول تھا ، فلک (ہمارا خلائی جہاز) اب اس کے گرد چکر لگا رہا تھا ، ہم نے چھوٹی شٹل سے اس سیارے پر اترنے کا پلان بنایا ، یہ ہماری سب سے چھوٹی شٹل تھی ، جس میں پانچ افراد باآسانی سفر کر سکتے تھے ، مگر اس وقت میں ، حامد اور ڈیوڈ کو امیر (کیپٹن) شوکت نے منتخب کیا ، پچھلے دو دنوں سے پتہ چلا تھا کہ اس سیارے پر سمندر ہیں ، نباتات بھی ہیں ، مگر ہمیں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ، البتہ ہم نے ایک علاقے میں انتہائی سخت دھاتی مادے کی موجودگی کا پتہ چلایا ، اور وہیں اترنے کا پروگرام بنایا ، مجھے امیر نے سیارے کے نقشے بنانے کو کہا ، جو انتہائی مشکل کام تھا ، کمپیوٹر کی غلطیوں کو پکڑنا زیادہ مشکل ہوتا ہے ، حامد کے ذمے ماحول کی معلومات اور سیارے پر انسانوں کی زندگی کے امکانات جیسے کام تھے ، ڈیوڈ ہم دونوں پر سیارے میں نظر رکھنے پر معمور تھا اسے شٹل کے اندر ہی رہنا تھا تا کہ کسی بھی ایمرجنسی میں کام کیا جا سکے ۔
ہم نے کافی عرصے کے بعد خلائی لباس پہنے تھے ،  جو ہلکے سبز رنگ کے تھے ، جسکی وجہ سے ہمیں کیموفلاج میں آسانی رہتی ، یہ سیارہ دہوسورج والے نظام کا حصہ تھا ، اور دوران گردش اس طرح سے سورج طلوع و غروب ہوتے کہ موحول کا درجہ حرارت یکساں رہتا ، اور روشنی بھی ، یہ ہی ایک وجہ تھی جسکی وجہ سے ہم اس سیارے پر زندگی کے آثار نہیں دیکھ پا رہے تھے ، مگر پانی کی موجدگی اور بادلوں کے بننے اور بارشوں کی وجہ سے موسم کا معتدل ہونا ممکن تھا ۔
 ہم شٹل میں پہنچ کر ائیر لاک ہو چکے تھے ، اور شٹل کے فلک سے الگ ہونے کا انتظار کرنے لگے ،  فرنٹ سکرین پر الٹی گنتی شروع ہو چکی تھی  ۔ ۔ ۔ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ  ۔ ۔ ۔ ایک منٹ دس سیکنڈ ۔ ۔ ۔اور پھر ایک جھٹکا سا لگا اور ہم سیارے کی طرف بڑھنے لگے ،  ہمارا خیال تھا کہ آکسیجن ہونے کی وجہ سے اوزون کا غلاف ہماری شٹل کو جلائے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا  ۔ ۔  اور ہم بہت آرام سے بادلوں کی طرف بڑھنے لگے  ۔ ۔ ۔ اور پھر ہماری شٹل عمودی ہو کر ایک بہت بڑے میدان میں اتر گئی  ۔ ۔ ۔ اتنی آرام دہ لینڈنگ پر ہم بہت خوش تھے  ۔ ۔  مگر ڈیوڈ نہیں ، اسے لگ رہا تھا کہ کوئی ایسی بات ہے جسکو وہ سمجھ نہیں پا رہا ، اور ابھی ہم نے اپنے بیلٹ کھولے ہی تھے کہ ہمارے سامنے وہ بات آ گئی ، ہماری شٹل تیزی سے زمین میں دھنسنے لگی ، ڈیوڈ کی چھٹی حس کی وجہ سے ہم نے دوبارہ شٹل کو فضا میں بلند کر لیا ، اس دوران ہمارے سنسرز نے پتہ لگا لیا کہ سیارے کی اس جگہ کی سطح بظاہر تو ٹھوس نظر آتی ہے مگر یہ اندر سے کھوکھلی ہے  ۔۔ ۔ اور اس سطح کے نیچے پانی ہے ، اب ہم نے پہاڑی علاقوں کی تلاش شروع کی جو ہمیں ایک سمت میں ایک سلسلے کی شکل میں نظر آ رہے تھے ، ہم نے نے اپنی شٹل ایک بڑے پہاڑ کی چوٹی پر اتار دی ، ہمارے آلات بتا رہے تھے ، کہ باہر کا درجہ حرارت پندرہ ڈگری ہے ، اور ہوا میں نمی کا تناسب چالیس فی صد ہے ، آکسیجن کی مقدار نائٹروجن کی مقدار سے کافی زیادہ ہے ، شاید یہ وجہ بھی ہو زندگی نہ ہونےکی  ۔ ۔  میں نے سوچا   ۔۔  اور باہر نکلنے والے چمبر میں حامد کے ساتھ آ گیا ، ویکیوم ہوتے ہی ہم اپنے لباس کے ساتھ باہر نکلے ، پتہ چلا کہ پہاڑ کی سطح نوکیلی ہے ، اور پھسلن بھی ہے ایسے جیسے کسی نے پتھر پر تیل گرایا ہو مگر ، وہ سطح ہی ایسی تھی ، ہوا کا دباؤ انسانی جسم کے لئے نارمل تھا ، مگر ہم لوگ رسک نہیں لینا چاہ رہے تھے ،  ہاں کشش ثقل بھی معتدل تھی ، ہمیں وزن محسوس نہیں ہو رہا تھا ، ڈیوڈ نے کہا کہ وہ  زمین میں تھر تھرہاہٹ ریکارڈ کر رہا ہے ، اور وہ مسلسل ایک ہی سکیل کی ہے ، جو ہو سکتا ہے ان پہاڑوں کے اندر لاوے کی ہو ، حامد اپنی دوربین سے کمپیوٹر سکرین پر ابھرنے والے نقش و نگار دیکھ رہا تھا ، اوہ یہ دیکھو ، میں نے دیکھا ایک پہاڑ کی بنیاد پر عجیب قسم کے دروازے بنے تھے ، اور صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ دروازے قدرتی نہیں ہیں ، کیونکہ وہ اردگرد کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ، امیر شوکت بھی سب کچھ اپنی اپنی سکرین پر دیکھ رہے تھے ، حامد نے اپنا دستانہ کھولا تا کہ وہ دباؤ چیک کر سکے ، اور پھر ہمیں پتہ چلا کہ ہم سانس بھی لے سکتے ہیں یعنی ماحول انسان دوست تھا ، حامد نے اپنا ہیڈ سیٹ اتارنے کی کوشش کرنے لگا ، تو میں نے بھی دستانے کھول دئیے  ۔ ۔ ۔ دور افق کے پار ایک سورج غروب ہو رہا تھا اور بلکل مخالف سمت میں دوسرے سورج کی روشنی نظر آ رہی تھی ، ہم نے اپنے ہیلمنٹ اتار دئیے فضا میں بالکل خاموشی تھی ، بالکل شام کا وقت لگ رہا تھا ، ہمارے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے کیونکہ سورج بہت تیزی سے ڈوب رہا تھا ، کیا تمہیں کچھ محسوس ہوا  ۔ ۔ حامد نے کہا نہیں ، زمین کا رنگ بدل رہا تھا ، ہم نے سوچا کہ شاید غروب آفتاب کی وجہ سے ہو ، مگر اب آواز ہوا کی آ رہی تھی مگر ہوا چلتی محسوس نہیں ہوئی ، پھر ایسے لگا جیسے ہمارے پاؤں کے نیچے سیٹیاں بجنے لگی ہوں اور اسکے ساتھ ہی ڈیوڈ کی آواز گونجی بھاگو  ۔  ۔ ۔  آکسیجن تیزی سے کم ہو رہی ہے ، اور پھر ہمیں ایسا لگا کہ جیسے ہمارے پاؤں من من کے بھاری ہو گئے ہوں بڑی مشکل سے ہیلمنٹ سر پر سیٹ کئے اور دستانے پہنے اور شٹل کی طرف بھاگے اس درمیان میں ایسے لگا کہ جیسے چاروں طرف طوفان آ گیا ہو مگر مزےدار بات تھی کہ صرف آواز تھی ، اور پہاڑ اپنے اندر تیزی سے ہوا کھینچ رہے تھے ، جسکی وجہ سے ہم بھی اندر دھنسے جا رہے تھے مگر پتھریلی سطح ہمیں روک رہی تھی ،  ابھی شٹل کافی دور تھی ، ڈیوڈ چلایا میں شٹل اوپر اٹھا رہا ہوں تم سیفٹی روپ کو مضبوطی سے پکڑ لو ، اور پھر جھٹک لگا  ۔ ۔ ۔ ۔ شٹل تیزی سے اوپر اٹھی تھی ، حامد مجھ سے آگے تھا وہ پہلے اٹھا  ۔ ۔  میں بھاگا اور میرا پاؤں کسی گڑھے میں پڑا اور ساتھ ہی جھٹکا لگا اور میں فضا میں اٹھتا چلا گیا  ۔ ۔ ۔ نیچے سے پہاڑ جیسے چیخ رہے تھے ، ہمیں اپنی طرف کھیچ رہے تھے ، ڈیوڈ پہاڑوں سے دور چلو ۔ ۔  میں چیخا ۔ ۔  حامد چلایا جلدی سورج کی روشنی ختم ہوتے ہی یہاں کشش ڈبل ہو جائے گی  ۔ ۔ ۔  آہستہ آہستہ ہم پہاڑوں سے دور ہونے لگے  ۔ ۔ ۔ ۔ نیچے چھوٹے چھوٹے پہاڑ تھے  ۔ ۔ اردگرد سمندر نظر آ رہا تھا  ۔ ۔ ۔ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری رسی ٹوٹ گئی  ۔ ۔ ۔ میرے نیچے اچانک ایک بڑا پہاڑ آیا تھا جو کہ ایک آتش فشاں کا دھانہ لگ رہا تھا  ۔ ۔ ۔ اور میں تیزی سے نیچے گرنے لگا  ۔ ۔ ۔ اسی دوران دوسری سمت سے روشنی بڑھ رہی تھی اور پہاڑوں میں ہوا کھنچنے کا عمل آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا   ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنا راکٹ سیلنڈر چالو کر دیا تھا مگر  ۔ ۔ پہاڑ ابھی تک مجھے اپنی طرف کھنچے جا رہا تھا ، شٹل مجھ سے دور ہو رہی تھی  ۔ ۔ ۔ ڈیوڈ میری روپ ٹوٹ گئی ہے  ۔ ۔ ۔ مگر ڈیوڈ کی کوئی آواز نہ سنائی دی  ۔ ۔ ۔ حامد حامد  ۔ ۔ ۔ کوئی آواز نہیں  ۔ ۔ ۔ اور پھر میرا راکٹ سٹارٹ ہو گیا  ۔ ۔  اور میں سمندر والی طرف بڑھنا شروع ہو گیا  ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ دوسرا سورج تیزی سے نکلا تھا  ۔ ۔ ۔ اور پھر ایک دم جیسے سب کچھ رک گیا ہو  ۔ ۔ ۔ میں تیزی سے سمندر میں گر رہا تھا  ۔ ۔ ۔ اسک ساحل بھی نظر آ رہا تھا ، میں نے راکٹ کنٹرول کر لیا تھا ، اور ساحل کی طرف آہستہ آہستہ  ۔ ۔ بڑھ رہا تھا  ۔ ۔ ۔  شٹل آسمان میں گم ہو چکی تھی  ۔ ۔ ۔ اور پھر میں پتھریلے ساحل پر اتر گیا  ۔ ۔  ۔ ۔ اور اب میں ایک بہت بڑے دروازے کے سامنے موجود تھا  ۔ ۔ ۔ جسے ہم نے کافی دور سے دیکھا تھا  ۔ ۔  ۔۔
————————————————————————————————————————————————————————————————————
دروزے کا رنگ چھبتا ہوا نیلا تھا ، اور وہ ایک ہشت پہلو یعنی چھے کونوں والا ایک دائرہ سا لگ رہا تھا  ۔ ۔ ۔ حامد حامد ، ڈیوڈ  ۔ ۔ ۔ کیپٹن  ۔ ۔ مگر کسی کو میری آواز نہ سنائی دی  ۔ ۔۔  میری کلائی کے سنسرز ایک مقناطیسی میدان کو بتا رہے تھے جسکے اندر میں موجود تھا اور اس میدان کا مرکز دروازے کے بعد تھا  ۔ ۔ ۔دوسرا سورج نکل چکا تھا ، عجیب بات تھی کہ سورج ڈوبتے بھی تیزی سے تھے اور ابھرتے بھی تیزی سے مگر پھر آہستہ آہستہ اپنے سفر کی رفتام کم کرتے اور پھر زیادہ کرنا شروع کرتے اور غروب ہونے تک تیز ہو جاتے  ۔ ۔ ہمارے حساب سے سیارے کا دن دس گھنٹوں کا تھا  ۔ ۔ ۔ جبکہ سیارہ بلکل عمودی محور پر گھوم رہا تھا  ۔ ۔  اسلئے شاید موسموں کا تغیر زیادہ نہیں تھا   ۔۔  ۔ میں دروزے کی طرف بڑھتا چلا گیا  ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے دستانے اور ہیلمنٹ نہیں اتارا تھا میں کسی رسک کے لئے تیار تھا ، گو کہ میرے سنسرز بتا رہے تھے کہ فضا کافی زیادہ سازگار ہے مگر  ۔۔ ۔ میں نے ابھی رسک نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا  ۔ ۔ کہ ایک زوردار گھڑگھڑاہٹ سے دروازہ کھلنے لگا   ۔  ۔ ۔ مجھے عجیب سی سنسناہٹ سنائی دی  ۔ ۔۔  میں ایک طرف ہو گیا  ۔ ۔ دروازہ پورا کھل چکا تھا ۔  ۔۔ اندر جیسے ایک بہت بڑا خلا نظر آ رہا تھا  ۔ ۔ ۔  سنسناہٹ تیز ہو گئی اور دروازے سے ایک بڑی سی نیلے رنگ کی سلاخ باہر آنے لگی ، سلاخ جیسے پتھروں پر پھسل رہی تھی ، سلاخ کے پیچھے سے بڑے بڑے ڈبے نظر آنے شروع ہوئے جو سلاخ سے بندھے تھے ، وہ نیلے رنگ کے پتھروں اور نیلی ریت سے بھرے ہوئے تھے ، وہ ایک بہت لمبی ریل لگ رہی تھی ،  مگر اسکی رفتار بہت ہی آہستہ تھی ، میں نے اسکے ساتھ چلنا شروع کیا اور پھر ایک ڈبے پر خود کو گرا دیا ، عجیب چپچپا سی دھات تھی  ۔ ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ریل کی رفتار بڑھنے لگی ہے ، اور پھر جیسے ریل اڑنے لگی  ۔ ۔ ۔۔  ساتھ ہی مجھے ڈیوڈ کی آواز سنائی دی  ۔۔ ۔ ہیلو ناظر تم کہاں ہو  ۔ ۔  میری آواز سن سکتے ہو ۔ ۔  ہاں  ۔ ۔ میں سن رہا ہوں تم کہاں ہو  ۔ ۔ لوکیشن کاشن دو  ۔ ۔ میں نے اپنی کلائی کے اور لگے پیلے بٹن کو مسلسل دبانہ شروع کر دیا ، لوکیشن لاک ، لوکیشن لاک  ۔ ۔ کی آواز آتے ہی میں نے گہری سانس لی  ۔ ۔ ۔۔ اور حامد کی آواز سنائی دی، اللہ کا شکر ہے تم زندہ ہو ورنہ ہم تو  ۔ ۔ ۔سمجھے تھے کہ تم اب نہیں ملو گے  ۔ ۔ ۔ میں اسے بتایا کہ میں ریل پر ہوں  ۔ ۔ ۔اور کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہا ہوں ،  کیا یہ خطرناک نہیں ،  ۔ ۔ ۔ ہے تو مگر  ۔ ۔ اس ریل سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ادھر زندگی ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ہو سکتی ہے  ۔۔  مگر تم کہیں کسی مشکل میں پھنس نہ جاؤ   ۔ ۔  ارے یار تم لوگ ہو نا ادھر اگر کوئی مشکل ہوئی تو تم موجود رہو گے  ۔ ۔ ۔ ۔ نا ۔ ۔ ہاں ، عابد ، راجیو اور بالاچ خان بھی دوسری شٹل سے آ رہے ہیں  ۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے بالاچ معدنیات کا ماہر ہے ، اور عابد اور راجیو کو سیکیورٹی دینے کے لیے بھیجا ہے امیر نے ۔۔۔۔اچھا گڈ  ۔ ۔ ۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے مجھے لاک کر دیا ہے ، ہاں وائنڈنگ ریز کی وجہ سے اب تھوڑی دیر میں تمہارا ٹیلی لنک بھی ہو جائے گا  ۔ ۔ ۔ اگر یہ گاڑی کسی پہاڑ کے اندر چلی گئی تو کیا ہو گا، میں نے پوچھا ، ہم نے چیک کر لیا ہے ، سیارے کی کثافت وائنڈنگ ریز کے لئے پرابلم نہیں کر سکتیں  ۔  ۔ اوہ اوہ  ۔ ۔  ناظر تم اپنا ہیلمنٹ تو نہیں اتار رہے ، نہیں کیوں کیا ہوا ، یہ دھات زہریلی دھات ہے ، اس میں سائنائیڈ کی بہت مقدار ہے اور کلورین فلورین گیس نکل رہی ہیں اس سے ، مگر مجھے میرے سنسرز نہیں بتا رہے  ۔ ۔ ۔میں کہا  ۔ ۔  کوئی پرابلم ہو گی ، سو احتیاط کرو ، تمہارا آکسجن کنورٹر ابھی بہت اچھی حالت میں ہے  ۔ ۔ ۔ریل کی رفتار کم ہونے لگی تھی اور ریل نیچے ہو رہی تھی بادلوں کے نیچے پھر منظر واضح ہوتا چلا گیا ، میرے سامنے زمین پر بے شمار ویسے ہی نیلے دروازے تھے ،  جن سے ریل جیسی شکل کی چھوٹی بڑی ریلز آ جا رہیں تھیں  ۔ ۔ ۔ میں  نے کسی بھی ریل میں کوئی کھڑکی یا دروازہ نہیں دیکھا تھا  ۔ ۔ اور نہ ہی چھوٹی گاڑیوں میں  ۔ ۔  حامد کیا تم دیکھ رہے ہو ۔ ۔ ۔ ہاں اسکی متحیر آواز سنائی دی ، امیر شوکت نے بھی سبحان اللہ کہا  ۔ ۔۔ ڈیوڈ نے کہا کہ میں شٹل کو اس علاقے کے قریب لا رہا ہوں  ۔ ۔ ۔ کیوں بھائی لوگو نئی دنیا دریافت کر ہی لی تم نے ، عابد کی آواز سنائی دی ، اوئے مغرور آدمی تم بھی آ گئے  ۔۔  اب مزہ آئے گا  ۔ ۔ ہاں میں اپنے راکٹ سے تمہارے پاس آ رہا ہوں ۔۔۔۔ راجیو بھی میرے پیچھے آئے گا  ۔ ۔ واہ اب مزہ آئے گا  ۔ ۔ ۔ہم نے ہتھیار رکھ لئے ہیں کسی بھی ایمرجنسی کے لئے  ۔ ۔ ۔ اور پھر عابد اور راجیو میرے ساتھ آ گئے انہوں نے مجھے دو لیزر ہتھیار دئیے ، اب ہم کیسے بھی حالات کے لئے تیار تھے ، راجیو ننھنی کو ساتھ لایا تھا یہ ایک دس انچ کا گول سا جہاز تھا جس میں اسنے دھات کو بھر کر شٹل کی طرف روانہ کر دیا  ۔۔ ۔ ریل اب ایک نیلے دروازے میں داخل ہو رہی تھی ، اندر بلکل اندھیرا تھا ،  مگر ہمارے سنسرز ہمارے کلائی کی سکرین پر منظر بتا رہے تھے ، اچانک ریل کا اگلا ڈبہ گھوم گیا اور اس میں سے دھات نیچے گر گئی ، اسی طرح دوسرا پھر تیسرا ، سائڈ پر  ۔ ۔ ۔ راجیو چیخا اور ساتھ ہی ہمارا ڈبہ الٹ گیا ہم نے ڈبے کو جوڑنے والے ٹیوب کو پکڑا تھا ڈبہ سیدھا ہو گیا الٹنے کے بعد ، ہم واپس ڈبے میں آ گئے ، عابد نے سرچ لائیٹ آن کی نیچے دیکھا تو بہت گہرائی میں نیلے رنگ کی دھات کے ڈھیر نظر آ رہے تھے ، ریل اب مڑ چکی تھی اور نیلا دروازہ قریب آ رہا تھا ، ہمیں ادھر ہی جمپ لگانی ہے عابد نے کہا  ۔ ۔ اور جیسے ہی ریل دروازے کے قریب پہنچی ہم نے چھلانگ ماری اور  دو دروازوں کے درمیان والی جگہ پر پاؤں جما دئیے  ۔۔ ہمیں محسوس ہوا کہ یہاں کشش ثقل کافی کم ہے ، کیونکہ ہم خود کو ہلکا محسوس کر رہے تھے دور دور تک ہمیں دروازے نظر آ رہے تھے، ہمیں آتی جاتی ریلوں کے رویوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی تھی ، جو ہم لوگوں کے لئے حیرانی کا بعث تھی ، اچانک بالاچ کی آواز ابھری ، ناظر تہمارے دائیں ہاتھ پر ایک دروازہ دوسرے دروازوں سے مختلف ہے ، اس کا رنگ تیز پیلا ہے ، اس پر کوئی نشان بھی ہے  ۔ ۔ ۔اسنے ہماری کلائی پر اس دروازے کا راستہ بنا کر بھیجھا  ۔ ۔ ہم اس طرف بڑھنے لگے ، پیلا دروازہ ہشت پہلو نہیں تھا بلکہ کسی حد تک گول تھا ۔ ۔ ۔ اس پر ایک ہشت پہلو نیلا نشان بنا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ اور اس سے جیسے شعائیں نکل رہی تھیں ، یہ دروازہ دوسرے دروازوں کی بنسبت چھوٹا بھی تھا  ۔ ۔ ۔ ابھی ہم اس دروازے تک پہنچے ہی تھی وہ دروازہ جیسے اندر دھنس گیا ہمیں ایک طویل سرنگ نظر آنے لگی جسکی دیواریں پیلے رنگ کی تھیں ، ہمارے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہو گیا، مگر اندھیرا نہیں ہوا کیونکہ سرنگ کی دیواریں روشن تھیں  ۔ ۔ ۔ ہم آگے چلنے لگے ،  اس سرنگ کا اختتام ایک بہت بڑے پیلے ہال میں ہوا ، اس میں چھوٹے چھوٹے ڈبے جڑے ہوئے تھے ، جن سے نیلے رنگ کا دھواں نکل رہا تھا ، ایک طرف سے ایک بیلٹ پر نیلی دھات کے ٹکڑے مسلسل آ رہے تھے جنکو الیکٹرانی بازو  اٹھا کر ڈبوں کی طرف لاتے اور ڈبے کا ڈھکن کھلتا اور اس میں وہ دھات جا گرتی اور ڈبے کا منہ بند ہو جاتا ، ڈبے مختلف سائزز میں تھے ، عابد نے ایک ڈبے کی طرف اسکینر کیا تو اسکی ایکسرے نظر آئی جو ایک پیچیدہ قسم کے سرکٹ اور مکینکل پر مشتمل تھی  ۔ ۔ ۔ ہر ڈبے پر مختلف نشان تھے جو نیلی دھات کے ہی لگتے تھے ، پھر یہ ڈبے ایک ایک کر کے سرنگ کی طرف جانے لگے  ۔ ۔ ۔ ہم نے بھی ان کے پیچھے دوڑ لگا دی ، ایک ڈبہ عابد سے ٹکرایا اور پھر جیسے ڈبوں میں ہلچل مچ گئی  ۔۔  ۔ چاروں طرف سے جیسے لال روشنیوں کا سیلاب آ گیا ہو، یہ تو لیزر ہیں  ۔ ۔ ۔ بھاگو ۔ ۔ ۔ ہم تیزی سے دروازے کی طرف بھاگے جہاں سے زن زن کر کے ڈبے باہر جا رہے تھے  ۔ ۔ ۔ اچانک عابد چلایا یہ دھات مٹی کو سکین کر رہے ہیں ، اور پھر ایک تیز لال دھار سے نہا گیا ، مجھے پکڑو  ۔ ۔ راجیو نے اور میں نے اسے گھسیٹ کر باہر لے آئے  ۔ ۔ دروازہ بند ہو چکا تھا  ۔ ۔ ۔ اور ڈبے نہ جانے کہاں تھے  ۔ ۔
————————————————————————-
  تم ٹھیک ہو  ۔ ۔ بالاچ کی آواز گونجی ، ہاں  ۔ ۔ ہم ٹھیک ہیں بس عابد گر پڑا تھا ، عابد تم نے بڑا کارنامہ کیا ہے  ۔ ۔ بالاچ کی آواز ابھری ۔۔۔ کارنامہ میں اور راجیو چونک پڑے  ۔ ۔  ہاں  ۔ ۔ عابد نے لوکیشن ڈیٹیکٹر ایک ڈبے کے ساتھ لگا دیا ہے   ۔ ۔ ۔  اسی لئے وہ  ڈبوں کی منزل ہماری نظر میں ہے  ۔ ۔ وہ مارا ، راجیو نے اپنی ران پر ہاتھ مارا، یہ ہوئی نا بات ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے تم ہماری رہنمائی کرو ہم پہنچتے ہیں وہاں ، ٹھیک ہے میں تمہیں محفوظ راستے کو بنا کر بھیج رہا ہوں ، سمت کے تعین کے لئے یہاں مسلہ ہے ، مگر میں تمہاری موجودہ پوزیشن کو معیار بنا رہا ہوں ، ٹھیک میں سمجھ گیا ، میں نے کہا  ۔ ۔ ۔میں تمہارے لئے پاتھ فائنڈر بھیجھ رہا ہوں ، پاتھ فائنڈر ایک چھوٹی سی گاڑی تھی جو کسی بھی طرح کے ماحول میں چل سکتی تھی اور اسکی ایٹمی بیٹریاں ، عمر بھر کے لئے کافی تھیں اور محفوظ بھی تھی ، کیونکہ ہم ایک گرم ترین ستارے کے اندر بھی جانے کا تجربہ کر چکے تھے اس میں اسلئے موجودہ حالات میں اس سے بہتر گاڑی ہو ہی نہیں سکتی تھی  اور ہم اپنے پاتتھ فائنڈر کے سہارے آگے بڑھنے لگے ، اس دوران ہم نے دیکھا کہ نیلی دھات سے بھری ریلیں آ جا رہیں تھیں اور ڈبے بھی ، مگر ڈبوں کی سمت مختلف تھی ، جبکہ ریلیں ایک ہی سمت میں آ جا رہیں تھیں ، شاید یہ وہ ہی سمت تھی جہاں سے ہم آئے تھے ،  پھر تھوڑی دیر بعد دروازوں والا علاقہ ختم ہو گیا ، اب ہم ایک صحرہ کے اوپر تھے ، مگر صحرا عجیب تھا جس کے درمیان میں پانی کی بڑی بڑی جھیلیں تھیں اور پیلے اور نیلے رنگ کے جھاڑ اگے تھے ، مگر ابھی تک ہم کسی حیواناتی موجودگی کی تصدیق نہیں کر پائے تھے ، نباتات بہت کثرت سے نظر آ رہیں تھیں،  صحرا میں ایک بار پھر ویسے ہی پہاڑ نظر آنے شروع ہو گئے ، انکے بعد سمندر تھا ، ایک دم ہمیں جھٹکا لگا ،ساتھ ہی ایمرجنسی الارم چیخ اٹھا ، زن زن کی آوازیں آئیں اور ایسے پتہ چلا کہ جیسے ہماری گاڑی سمندر میں گر رہی ہو ، عابد جو کنٹرول پر تھا کہنے لگا ، پریشانی کی بات نہیں اصل میں وہ ڈبوں کا ایک جتھہ تھا جو اس راستے پر آ گیا تھا ، اور ہماری گاڑی سے ٹکرا سکتا تھا ہمارا سفر پھر شروع ہو چکا تھا ، سمندر بالکل پرسکون تھا ، ساحل پر بھی لہریں نہیں بن رہیں تھیں  ۔ ۔ ۔جو ایک عجیب وجہ لگ رہی تھی ، اب پھر پہاڑ شروع ہو گئے تھے ، اور اسکے بعد ویسا ہی صحرا ، اور تھوڑی ہی دیر میں ہمیں ایک پیلا سا نقطہ نظر آنا شروع ہوا ، ساتھ ہی بالاچ کی آواز ابھری ، یہ ڈبوں کا شہر ہے ، اب تم لوگ ریڈی رہو ، امیر کا کہنا ہے کہ ہم پہلے میسج بھیجیں گے اور رسپانس پر آگے کا لاحیہ عمل سوچیں گے ، ٹھیک ہے ، میں نے اپنے بورڈ پر میسج لکھنا شروع کیا ، ہم سیارہ زمین کے رہنے والے ہیں ، خود کو انسان کہتے ہیں ،  ہم ایک ذہین مخلوق ہیں ، جو اردگرد کی چیزوں سے کام لینا جانتے ہیں ، ہم امن پسند ہیں اور دوسروں کے لئے بھی امن چاہتے ہیں ، میں نے پیغام کو ڈی کوڈر پر لوڈ کر دیا اور ساتھ ہی ساری فرئکیونسیز پر بھیجنا شروع کر دیا ،  پیلا شہر اب قریب آ چکا تھا ، ہمیں پتہ چلا کہ اس شہر کے گرد ایک لیزر کی حفاظتی  پٹی ہے ، اور ڈبے جتھوں کی شکل میں آ جا رہے تھے ، حفاظتی تہ میں نظر نہ آنے والے دروازے تھے جو ڈبوں کے آنے جانے پر کھل بند ہو رہے تھے ، یہ انفارمیشن ہمیں اپنے سنسرز سے مل رہیں تھیں ، ہم نے لیزر کی تہ کا معانہ کرنا شروع کیا ، تو پتہ چلا کہ اس تہ کا منبہ شہر کے گرد لگے پیلے رنگ کے ستونوں میں ہے ،  ڈی کوڈر کی آواز آ رہی تھی ، میسج آل فریکونسیز پر بھیج دیا گیا ہے ، کوئی جوابی انفارمیشن نہیں ملی ، کمپیوٹر بار بار یہ دہرا رہا تھا ، ارے یہ تو روبی کرسٹل جیسی لیزر ہے ، اسک توڑ ہے پانی ، اگر ہم اپنی گاڑی کا جیٹ واش ایکٹیو کر کے چلیں تو ہم بہت آسانی سے شہر کے اندر جا سکیں گے ، راجیو نے کہا ، بلکل ٹھیک ویری گڈ راجی ، تم نے ٹھیک کہا ، بالاچ کی آواز ابھری ، اور عابد نے جیٹ واش آن کر دیا ، پوری گاڑی گیلی ہو چکی تھی  ۔ ۔ ۔ ہم زن کر کے شہر میں داخل ہو گئے ، ، عجیب منظر ہمارے سامنے تھا ،پیلے رنگ کی عمارتیں ایسی جیسے کسی نے دو یا تین مٹکے اوپر نیچے رکھ دئے ہوں ، ہر عمارت کے اوپر ایک بورڈ تھا جس پر نشان بنے تھے ، جنکی ترتیب انکے گنتی نمبر ہونے کی غماض تھی ۔۔۔ یعنی ایک گول دائرہ پھر گول دائرے میں ایک لکیر ، پھر دو لکیریں اور اسی طرح گول دائرے کی جب پانچ لکیرں ہو جاتیں تو پھر ایک اور گول دائرہ ساتھ میں لگ رہا تھا ، یار عجیب بات ہے ، ہر بلڈنگ کے اندر ایک متحرک مقناطیسی میدان نظر آتا ہے ، اور یہ میدان شاید ہر ڈبے کی وجہ سے بن رہا ہے ، راجیو نے کہا ، اور ، بلڈنگز کے درمیان کافی فاصلہ تھا مگر سڑکیں نہیں تھیں ایسا لگتا تھا جیسے بہت ساری کھمبیاں اگی ہوں ، ہم نے گاڑی کو زمین پر اتار لیا ، اور نیچے اترنے کا فیصلہ کیا ، میں نے اور راجیو نے مزید حفاظتی آلات ساتھ رکھ لئے ، عابد کو گاڑی میں ہی رہنا تھا کہ وہ ہم پر نظر رکھے اور کسی بھی ہنگامی حالات کے لئے تیار رہے ، ہم باہر نکلے تو پتہ چلا کہ زمین جو ریتلی لگ رہی تھی ٹھوس تھی ، مگر کچھ گیلی لگ رہی تھی ، مگر کسی مائع کی موجودگی سنسرز نہیں دکھا رہے تھے ، ہمیں چلنے میں کوئی دشواری نہیں تھی ، یہاں کشش ثقل بھی معتدل تھی ، یعنی ہمیں اپنا وزن محسوس نہیں ہو رہا تھا ، مگر اتنی بھی کم نہیں تھی کہ ہم اڑ سکتے ، سو آرام سے چلنا شروع کیا ، عابد نے گاڑی اوپر اٹھا لی تاکہ وہ دور تک نظر رکھ سکے ، اور سمت بتا سکے ، ہم نے بالاچ کے کہنے پر اس راستے پر چل رہے تھے جس کے آخر میں ڈبوں کی بہت زیادہ تعداد موجود تھی اور وہاں وہ ڈبے متحرک بھی تھی ،  پھر ایک جگہ آ کر عابد ہمیں رکنے کو کہا ، اور کہا کہ اب آگے یہ عمارتیں ختم ہو چکی ہیں ، آگے ایک چٹیل میدان تھا ، جس پر طرح طرح کے ڈبے موجود تھے ، ایک طرف ایک بڑا سا ڈبہ تھا ، جس میں وہ ہی نیلی دھات بھری تھی ، مگر اب دھات چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی شکل میں تھی ، پھر ایک دم جیسے ہوا میں آگ لگ گئی ہو ، یہ ہمارے سنسرز بتا رہے تھے ، واؤ ، عابد کی آواز گونجی ، کیا ہوا ، آگے بڑھو خود دیکھو ، ہم نے دیکھا ایک بلڈنگ سے دھوان اٹھ رہا تھا اور ایک ڈبوں کا جتھہ اسکے آگے پیچھے گھوم رہا تھا ، اور تھوڑی دیر میں وہ پیلا دھواں ختم ہو گیا اور ساتھ ہی ڈبے اسکے اندر چلے گئے  ۔ ۔ ۔ اور ہمارے سنسرز پر درجہ حرارت نارمل ہو چکا تھا اور وہ دھات والا بڑا سا ڈبہ اب آگے کی طرف بڑھ چکا تھا ، ایک بار پھر بہت سارے ڈبے اس دھات والے ڈبے کے گرد جمع ہو چکے تھے ، تھوڑی دیر بعد ڈبے ایک دائرہ بنا چکے تھی ، باری باری ایک ایک ڈبہ دھات والے ڈبے پر جاتا اور دھات کے کیوبز کو خود سے چپکا لیتا ، جب سارے ڈبے یہ عمل کر چکے تو ایک ایک طرف سے ایک بلکل پیلا ڈبہ آیا اور میدان میں ایک جگہ پر آکہ کھڑا ہو گیا ، باقی ڈبے اسے اردگرد دائرے میں کھڑے ہو چکے تھے ، پھر انہوں نے آہستے آہستے پیلے ڈبے کے گرد گھومنا شروع کیا ، اور ہمارے سنسرز نے پھر ٹمپریچر کا اضافہ نوٹ کیا ، ایسے پتہ چل رہا تھا کہ جیسے جھکڑ چل رہا ہو ، ڈبے اوپر نیچے ہو رہے تھے  ۔ ۔  اوہ اوہ یہ تو یہ بلڈنگ بنا رہے ہیں ، تھوڑی دیر میں وہاں پر ایک پیلی بلڈنگ کھڑی تھی جس سے پیلے رنگ کا دھواں اٹھ رہا تھا ، اور ڈبے اسکے گرد چکر لگا رہے تھے ، پیلا ڈبہ پھر نمودار ہوا اور اسنے بلڈنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا اسکے ایک کونے سے ایک نیلی روشنی کی دھار نکلی اور بلڈنگ پر ایک نمبر بن گیا  ۔ ۔ا ور پیلا ڈبہ پھر گھوما اور سارے ڈبے اس بلڈنگ میں چلے گئے پیلا ڈبہ ابھی تک وہیں تھا ، عابد نے اپنی گاڑی اس پر لائی ، اور روبوٹک بازو سے ڈبے کو پکڑ لیا ، اور اندر کر لیا ، ڈبے نے کوئی مزاحمت نہیں کی ، عابد نے گاڑی ایک طرف اتاری اور ہم اس پر سوار ہو گئے ، بالاچ کی آواز آئی ، تم لوگ اب فلک پر جاؤ گے ، ہم سیارے کا سروے کریں گے ، اس دوران تم ڈبوں کے بارے میں معلومات جان لو ۔ ۔  اور ہم فلک کی طرف روانہ ہو گئے ، پیلا ڈبہ ہمارے سامنے تھا جسے اب ایک روبوٹک لاک سے باندھ دیا تھا ، میں نے اس پر ہاتھ پھیرا ، سطح دیکھنے میں ملائم تھی مگر محسوس کرنے پر کھردری تھی ، ڈبے کے کسی طرف کوئی سوراخ نہیں تھا ، نہ ہی کوئی بٹن وغیرہ ، جب ہم سیارے کی حدود سے باہر نکلے تو ڈبے میں ہلچل ہو گئی ، وہ سیارے کی طرف زور لگانے لگا ، جیسے ہی ہم سیارے کی کشش سے باہر نکلے ، ڈبے کی مزاحمت ختم ہو گئی ،  ہم فلک پر پہنچ چکے تھے ، ڈبے کو لیب میں لایا گیا ، امیر بھی آ گئے تھے ، ڈاکٹر اقبال جو کہ نیلی دھات پر تجزیہ کر چکے تھے ، اور ہم اس رپورٹ کے منتظر تھے ، ڈبے کو تجزیاتی میز پر رکھا گیا اور اسی طرح جکڑا ہوا تھا کہ مزاحمت نہ کر سکے ،  اقبال نے کھڑے ہو کر رپورٹ سنانی شروع کی ، اس دھات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ایک توانائی پیدا کرنے والا مادہ ہے ، جو کہ ٹھنڈا ہونے پر توانائی خارج کرتا ہے ، اور عجیب بات یہ ہے کہ اس میں نباتاتی خصوصیات بھی ہیں یعنی آپ اگر اسے کھاؤ گے تو یہ ہضم بھی ہو سکتا ہے ، مگر ہمیں پتہ چلا تھا کہ یہ زہریلا ہے ، یہ زہریلا نہیں بلکہ زود ہضم ہے آپ اسے ایک طرح کا چورن کہ سکتے ہیں ، ہاں آکسیجن کی  کمی ہونے کی صورت میں یہ خود ایک تعامل کرتا ہے جس سے سائنایڈ بنتا ہے ، جو کہ خطرناک ہے ، یہ انتہائی تیزی سے آگ پکڑ سکتا ہے ، مگر صرف تب جب آکسیجن نہ ہو تو  ۔۔ ۔  بڑی عجیب بات ہے ، ہاں یہ خود آکسیجن جزب کرتا ہے ، آپ نے سیارے کے پہاڑوں پر جس طوفان کا مشاہدہ کیا تھا ، وہ اسی دھات کی وجہ سے ہے ، یہ سیارہ اندرونی طور پر اسی دھات سے بنا ہے ، اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو اسے آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ فضا سے آکسیجن جزب کرنا شروع کر دیتا ہے ، اور یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ آپ کو طوفان کا گمان ہوتا ہے ، اوہ ، یہ تو بہت عجیب بات ہے یعنی یہ پورا سیارہ سانس لیتا ہے ؟ راجیو نے پوچھا ، ہاں بلکل صحیح یہ سیارہ سانس لیتا ہے ، اور اسکی مخلوق ہے یہ ڈبے ، ہم ڈبے کی طرف متوجہ ہو گئے ، جسپر عابد نے ایک لیزر گن فٹ کی تھی ، اب ڈبہ ہمارے چھوٹے سے چمبر میں تھا جو شیشے کا تھا ، عابد نے لیزر آن کی اور ڈبے پر ڈالی ، دھات کٹنے لگی ، اور پھر یہ کیا ، اسکے اندر صرف وہ ہی نیلے رنگ کی دھات بھری تھی ، جو سیال شکل میں تھی  ۔ ۔ ۔ ہم نے پورے ڈبے کو کاٹ ڈالا مگر اس میں صرف یہ دھات ہی تھی اور اسکا کور  ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔
امیر امیر  ۔ ۔ ۔ بالاچ کی آواز آئی ، کیا ہوا بالاچ امیر نے پوچھا ، آپ کے ڈبے کو کاٹتے ہی یہاں ایک طوفان مچ گیا ہے ، ہم فلک پر آ رہے ہیں ، اور جب ہم کنٹرول روم میں پہنچے تو عالیہ چلا رہی تھی ، جتنی جلدی ممکن ہو ٹارگٹ سیٹ کرو ، بالاچ بھی اندر آ چکا تھا وہ ویژیل کنٹرول پر بیٹھ گیا سیارے کا منظر ہمارے سامنے تھا ، سیارے میں جیسے ہلچل مچی تھی ، جگہ جگہ ڈبے ویسی ہی عمارتیں بنا رہے تھے ، ریل گاڑیاں بھی بہت تیزی سے آ جا رہی تھیں ،  ۔ ۔ یہ یہ کیا ہو رہا ہے ، میں نے پوچھا ، سیارے کے ایک طرف ایک اور بڑا پیلا شہر ہے جہاں یہ ڈبے بنانے کی فیکٹری ہے ، ڈبہ چھوٹا سا بنتا ہے اور وہ یہ دھات کھا کھا کر بڑا ہو جاتا ہے  ۔ ۔ ۔ اس شہر میں ایک جگہ پر پیلی روشنی ہے ، جہاں ڈبے کے جاتے ہی وہ روشنی اسے گھیر لیتی ہے ، بالاچ نے اسکرین پر اپنی بنائی ہوئی ویڈیو لگا دی ، یہ دیکھو یہ ڈبہ ایک چھوٹے ڈبے کو جنم دے رہا ہے ، اور یہاں پر یہ چھوٹے ڈبے کو خود پر بیٹھا کر یہ نیلی دھات میں لوٹ پوٹ کرتا ہے اور ایسے ہی اسکا سائز بڑھ جاتا ہے ، اور وہ ڈبوں کے ایک جتھے میں شامل ہو جاتا ہے ، ایک جتھہ عام طور پر آٹھ اور بارہ ڈبوں کا ہوتا ہے ، جب تم لوگ ڈبے کا آپریشن کر رہے تھے تو یہاں بہت ہلچل ہوئی یہ دیکھو، یہ عمل تیز ہو گیا ، اب سیارے کی چالیس فیصد زمین ڈبوں سے بھر چکی ہے ، اور سورج بھی غروب ہونے والا ہے ، دوسرے سورج کے نکلنے کا وقفہ ہی یہاں خاموشی ہوتی ہے ، اب لگتا ہے کہ اب یہ کچھ انتقامی تیاری ہو رہی ہے ، عالیہ کی آواز آئی اور وہ انتقام شروع ہو چکا ہے ، ہم نے اسکرین پر دیکھا ہزاروں پیلے ڈبے  فلک کی طرف بڑھ رہے تھے ،  لیزر شیلڈ آن کرو ، نہیں اقبال چلایا ، یہ بہت  زیادہ ایکٹیو ایندھن سے بنے ہیں ، ایک بھی ڈبہ اگر جل گیا تو پورے فلک کو اڑا دے گا ، تو پھر کیا کریں ، امیر نے کہا ، مزائیل ریڈی کرو ، مزائیل ایک ڈبے کو مارا جا سکتا ہے ، سب کو نہیں ، ہاں وہ ہی کہ رہا ہوں اور فل فورس سے فلک کو ڈیپ اسپیس میں لے جاؤ ، اوکے  ۔ ۔ سر  ۔ ۔  عابد نے مزائیل کنٹرول ڈسک پر سے مزائل لانچ کر دیا ، ڈبے اب تیزی سے بڑھ رہے تھے اچانک عابد کو کیا سوجھی اسنے ایک چھوٹی ریسکیو گاڑی خلا میں چھوڑ دی ، ڈبے اسکی طرف بڑھے ، اور اسکے اردگرد چکرانے لگے ، انجن فل ہو چکا تھا اسپیڈ ریڈی تھی ، سات ، چھہ ، پانچ ، چار تین دو ایک ، اور ایک زبردست جھٹکا لگا اور ساتھ ہی مزائیل فائر ہوا ، جو سیارے میں جا گرا ایک آگ کا گولا تھا جس نے سارے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، اور پھر ایک بہت تیز پیلے رنگ کی چمک پیدا ہوئی ، جو ہم نے اس سیارے میں دیکھی ، ہم بہت تیزی سے اس کہکشان کو چھوڑ رہے تھے ، مگر ہم نے اپنے مانیٹر پر نظر رکھی تھی جو دو ستاروں کے نظام کو دکھا رہا تھا ، سیارے کے تباہ ہوتے ہی دونوں سورج بھی تیزی سے ایک دوسرے میں مل گئے اور ایک سفید رنگ کا شعلہ پیدا ہوا جو اس کہکشان کے دوسرے نظاموں تک پھیلنے لگا   ۔ ۔ ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ، پوری کہکشان جیسے جل بجھ گئی ہو  ۔ ۔ ۔۔ ہم اس سے بہت دور آچکے تھے ، ملکی وے کہکشاں سامنے تھی ، ہم تیزی سے زمین کی طرف رواں دواں تھے ، ہمیں معلوم تھا کہ زندگی اسی جگہ ہے ، گو ہمیں نکلے بارہ سال گذر چکے تھے ، مگر ہم جانتے تھے کہ زمین پر صدیاں گزر چکیں ہونگی  ۔ ۔ ۔  فلک نظام شمسی میں داخل ہو چکا تھا ، ہم نے مریخ پر رابطہ کرنے کی کوشش کیں مگر کوئی جواب نہیں ملا ، سنسرز نے وہاں زندگی کی موجودگی کا انکار کیا ، بلکہ ہماری ساری کی ساری انسٹالیشن بھی وہاں موجود نہیں تھیں ، زمین کو جائزہ لیا تو یہ کیا ، کوئی سٹیلائیٹ نہیں تھا وہاں ، نہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جسے اکیسویں صدی میں بنایا گیا تھا اور اب وہ سپیس میوزم کہلاتا تھا  ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی دوربییں زمیں کی طرف کیں ، زمیں پر لوگ موجود تھے ، مگر صدیوں پرانے لباس میں ، کیا مطلب ہم وقت سے پیچھے آ گئے ہیں ، نہیں  ۔ ۔ ایسا نہیں ہے  ۔ ۔  یہ دیکھو چاند پر نیل آرمسٹرنگ کے پاؤں کا نشان جسے بعد میں محفوظ کیا تھا اور  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اور  ۔ ۔ عالیہ کی آنکھیں دھشت سے پھیل گئیں اور ہم سب کی بھی  ۔ ۔ ۔ کیونکہ  امریکہ والی سائیڈ پر ہمیں وہی پیلے ڈبے نظر آ رہے تھے ، جنکو پکڑ کر بہت سارے لوگ آ جا رہے تھے یعنی وہ  ۔ ۔ ۔ سواری کے کام کر رہے تھے  ۔ ۔ ۔ اور لوگ بالکل نارمل تھے  ۔ ۔ ۔۔۔  اسی لمحے ، میسج بورڈ نے آنے والی کال کی ٹون دی ، ہالو گرافک کال تھی ، جسے سنٹر پر متقل کر دیا گیا  ۔ ۔ ۔ ہم سب بے چین تھے ، کہ گرافک امیج بن گیا ، جو ایک جوان شخص کا تھا ، اسکی آواز میں جیسے اداسی سمو دی گئی تھی ، مجھے یقین ہے آپ ضرور آئیں گے  اس لئے یہ میسج میں نے چاند میں چھپایا ہے ، جو فلک کے قریب آتے ہی آپ تک مل جائے گا ، ہمیں دو سال پہلے ہی پتا چلا تھا کہ آپ نے اس سیارے کو ختم کیا ہے ، یہ ڈبوں والی مخلوق ہم تک جانے کیسے پہنچی ، اسنے ہمیں پیغام دیا کہ یہ دوستی چاہتے ہیں ، اور پھر لوگ انکے دیوانے ہو گئے ، انہوں نے دنیا سے آگ کو ختم کر دیا ، کیونکہ انکی زندگی روشنی پر ہی چلتی تھی یعنی سورج کی روشنی ، اور پھر جب انہیں پتہ چلا کہ آپ نے انکی کہکشاں تباہ کر دی ہے تو انہوں نے ایک ہی دن میں یہاں کی ہر چیز ختم کر دی سوائے انسانوں کے اور جانوروں کے ، اب دنیا میں کوئی کارخانہ نہیں ہے ، سب انسان پھل اور سبزیاں کھاتے ہیں وہ بھی کچی ، عمارتیں بھی گارے کی بنائی جا رہیں ہیں ، اب اس دنیا میں آگ صرف آپ کے پاس ہے ، اور وہ علم بھی  ۔ ۔ ۔ میں یہ سب ہوتے وقت چاند پر موجود تھا ، ہم سب کو مار دیا جائے گا ، یہ مخلوق بہت ظالم ہے ، اسکے اندر ایک نیلا مادہ ہے جو انسان کو لگتے ہی انسان پگھل جاتا ہے ، بس اسکی ایک کمزوری ہے اور وہ ہے آئینہ  ۔ ۔ اس مخلوق کو اگر آئینہ دکھا دیا جائے تو یہ وہیں پہ ختم ہو جاتی ہے  ۔ ۔  اس سے زیادہ میں اس کے بارے میں نہیں جانتا  ۔ ۔ ۔ ۔ فلک کو نظام شمشی سے باہر لے جاؤ  ۔ ۔ ۔ امیر نے کہا ، فلک ملکی وے کے اوپر پہنچ گیا زمین ایک نیلا نقطہ لگ رہی تھی  ۔۔ ۔ اور ہم سب آنے والے وقت کو سوچ رہے تھے  ۔ ۔ ۔
(جاری ہے )

تبصرہ کریں